- Get link
- X
- Other Apps
ضرب کلیمی
ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے
واں کنٹر سب بلوری ہے یاں ایک پرانا مٹکا ہے
اس دور میں سب مٹ جائیں گے ہاں باقی وہ رہ جائے گا
جو قائم اپنی راہ پر ہے اور پکا اپنی ہٹ کا ہے
عصرِ حاضر میں امت مسلمہ پسماندگی کا شکار ہے اور اس کی وجہ صرف اور صرف اپنے دین و ثقافت کو ترک کر کے مغربی تہذیب کو اپنا لینا ہے۔ چند صدیوں قبل مسلمانوں کی جو ہشمت پناہی تھی اب عالم نو میں اس کا خاتمہ ہو چکا ہے اور اس کے زمہ دار مسلمان خود ہیں۔ انگریز مسلمانوں کو اپنا غلام بنانا چاہتے تھے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے دن دگنی رات چوگنی محنت کی جس کے نتیجے میں انہوں نے کامیابی حاصل کی۔ انگریزوں کی اس کامیابی کے پیچھے سب سے بڑا کردار مسلمانوں کا تھا ۔ مسلمانوں نے ان کی غلامی قبول کر لی۔ اگر ہم اس وقت ان کی غلامی کرنے سے انکار کر دیتے تو آج آزادانہ طور پر زندگی بسر کر رہے ہوتے۔
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے
ہم کل بھی فرنگ کے غلام تھے اور آج بھی اسی کے غلام ہیں۔ تاریخ کی کتب میں یہ درج ہے کہ 77 سال قبل 14 اگست 1947 کو مسلمانوں نے انگریزوں سے آزادی حاصل کی اور پاکستان وجود میں آیا مگر جہاں تک میرا خیال ہے کہ تاریخ کی ان کتب میں سچائی بیان نہیں کی گئی ۔ ہاں! مسلمانوں نے محض ایک زمین کا ٹکڑا تو حاصل کر لیا لیکن آزادی حاصل نہیں کی ۔ نادان لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں بنا کسی پابندی کے نماز پڑھنے، قربانی کرنے اور دیگر عبادات کرنے کی اجازت ہے تو وہ مکمل طور پر آزاد ہیں لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے۔ اقبال نے کیا خوب عرض کیا
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
ہم آج بھی جسمانی اور ذہنی طور پر انگریزوں کے غلام ہیں اور موجودہ حالات اس بات کی گواہی دیتے ہیں ۔ ہم IMF سے قرضہ لیتے ہیں اور اسے ایک مقررہ وقت پر ادا کرنے کا معاہدہ کرتے ہیں ۔ ہم وہ قرضہ ادا نہیں کر پاتے اور اس پر سود لگتا چلا جاتا ہے۔ قرضے کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہمارے حکمران عوام کے ادا کیے گئے محصول سے اپنی آف شیور کمپنیز بنا لیتے ہیں۔ قرضہ نہ ادا کرنے کی صورت میں ہمیں IMF کی تمام شرائط منظور کرنی پڑتی ہیں اور یوں وہ ہم سے اپنے من چاہے کام کرواتے ہیں اور اس طرح اس وطن کی عوام اپنے وطن کی بالادستی کے لیے نہیں بلکہ انگریزوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتی ہے ۔ اس طرح ہم لوگ ان کے جسمانی غلام بن جاتے ہیں۔ ہم انگریزوں کے ذہنی غلام بھی ہیں۔ ہم فرنگی تہذیب پر عمل پیرا ہیں ۔ ہمارے ملک کے جوانان مغربی طرز معاشرت پر جینا چاہتے ہیں اور اسلامی طرز معاشرت پر جینے کو گداگری جانتے ہیں
روش مغرب ہے مد نظر
وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
اقبال نے اپنی پوری زندگی مغرب کی مخالفت کی مسلمانوں کو انگریزوں کے ذہنی اور جسمانی غلام بننے سے بچانے کی کوشش کی۔ وہ یہ خیال کرتے تھے کہ جب مسلمان ایک علیحدہ مملکت حاصل کر لیں گے تو ادھر اسلامی قوانین نافذ العمل ہوں گے اور مسلمان مکمل طور پر آزاد ہو جائیں گے۔ ادھر فارسی اور اردو زبان ذریعہ تعلیم ہو گی۔ اس ملک کے جوانان اسلام کو بام عروج تک پہنچانے کے لیے جدو جہد کریں گے لیکن اگر آج علامہ اقبال زندہ ہوتے اور اس ملک کے حالات پر نظر دوڑاتے تو انہیں حد درجہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا کہ انہوں نے مسلمانوں کو انگریزوں سے آزادی دلانے کے لیے انتھک محنت کی لیکن ہم آج بھی انہی کے غلام ہیں۔ ہم آج بھی وہی بزدل، بے ضمیر اور اسیر قوم ہیں۔ آخر کتنی ہی کاوشیں کی گئیں، کتنی ہی تدابیر استعمال کی گئیں لیکن کچھ کام نہ آیا۔ اس ملک و ملت کے حالات دیکھنے کے بعد اقبال کے ذہن میں یہی خیال آتا:
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتیں ہیں زنجیریں
- Get link
- X
- Other Apps
Comments
All Muslims have to read this article
ReplyDelete