- Get link
- X
- Other Apps
کشمیر کی لہو رنگ وادی کی سیر
میں نے سامانِ سفر باندھ لیا تھا۔ میں اس سفر کے لیے بہت پُرجوش تھی کیونکہ میری منزل کشمیر کی جنت نظیر وادی تھی، لیکن مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ میں کشمیر کی جنت نظیر وادی کی سیر کے بجائے، کشمیر کی لہو رنگ وادی کی سیر کے لیے جا رہی ہوں۔
ہماری گاڑی بھارت کے راستے سے کشمیر کی سرحد میں داخل ہو گئی تھی کیونکہ پاکستان سے جموں کشمیر جانا ممکن نہ تھا۔ چیک پوسٹ پر ہمیں بھارتی افسران نے روکا اور ہم سے شناختی کارڈ طلب کیا۔ میرے چچا کے بھارت میں کچھ سیاسی روابط موجود تھے۔، اس لیے انہوں نے ہمارا بھارتی شناختی کارڈ بنوا دیا تھا، جس کے باعث ہمیں کوئی مشکل درپیش نہ آئی۔
ہماری گاڑی آگے بڑھ رہی تھی۔ میں پہاڑوں کے حُسن و جمال اور شان و شوکت دیکھنے میں مصروف تھی۔ ڈرائیور نے گاڑی روک دی۔ ہم باہر نکلے، تو دیکھا کہ ایک بہت بڑا تالاب ہے۔ میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ تالاب کا پانی سرخ تھا۔ مجھے لگا کہ یہ صرف میری آنکھوں کا دھوکہ ہے، لیکن جب میں نے اپنے گھر والوں کی طرف نظر موڑی تو میں سمجھ گئی کہ یہ حقیقت ہے۔
میں شاید اُس وقت اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھی۔ مجھے یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ یہ سرخ پانی کا تالاب نہیں، بلکہ خون کا تالاب ہے۔ میں بے اختیار اُس کے قریب جا پہنچی۔ وہاں ایک جوان شخص کی لاش پانی پر تیرتی دکھائی دی۔ اُس کے ساتھ ایک تین یا چار سال کا بچہ بھی تیر رہا تھا— شاید اُس کا بیٹا، جو اب سانسوں کی دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔ میں نے تالاب میں ایک انسانی ٹانگ کو تیرتے دیکھا، لیکن عجیب بات یہ تھی کہ وہ جسم سے جدا تھی۔ اُس کے قریب ہی ایک سر بھی تیر رہا تھا، بدن سے جدا، خاموش، بےحس۔
میرا دل متلانے لگا۔ میں نے نظریں ہٹائیں اور پہاڑوں کی طرف نگاہ بلند کی تو تھوڑا سا اطمینان محسوس ہوا۔
سُنا ہے بہت سستا ہے خون وہاں کا
ایک بستی جسے لوگ کشمیر کہتے ہیں
میں ابھی پہاڑ کے اُس حسین منظر کو دیکھ ہی رہی تھی کہ یکایک وہاں سے شعلے بلند ہوتے دکھائی دیے۔ شعلے، بے شمار شعلے... اور اُن کے ساتھ ایک خوفناک آواز، ایک دھماکے کی گونج۔ میں کچھ سمجھے بغیر اس پہاڑ کی طرف دوڑنے لگی۔ میرے والدین نے مجھے پکارا، مجھے روکنے کی التجا کی، مگر میں نہ رکی۔
میرے والد میرے پیچھے آ رہے تھے۔ میں پہاڑ پر بنے راستے پر تیزی سے دوڑ رہی تھی۔ جب میں چوٹی پر پہنچی تو میں نے دیکھا کہ سیاہ خاکستر جیسے انسان زمین پر پڑے تھے— اور اُن میں کوئی جنبش نہ تھی۔ اُن کے چہروں سے شناخت ممکن نہ تھی، کیونکہ اُن کی لاشیں جھلس چکی تھیں۔ ایک کے بال لمبے تھے، جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ ایک عورت ہے۔ جبکہ دوسرے کے بال چھوٹے تھے اور جسم قدرے طاقتور تھا، جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ مرد ہے۔
بہر حال، میں پہاڑ کی دوسری جانب گئی، یوں میں نے دیکھا کہ چند لوگوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور وہ گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے ہیں، اور سامنے چند لوگ ان پر بندوق تانے کھڑے ہوئے ہیں۔ ایک دم گولیاں چلنے کی آواز آئی اور میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ میں پیچھے مڑی تو وہاں میرے والد کھڑے ہوئے تھے، مجھ سے واپس چلنے کی درخواست کر رہے تھے۔ میں راضی ہو گئی۔ میں جانے کے لیے مڑی ہی تھی کہ ایک نعرہ بلند ہوا:
"ہر گھر سے مجاہد نکلے گا، کس کس کو تم لوگ مارو گے؟"
مجھے یہ نعرہ پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے نعروں سے ملتا جلتا لگا، مگر یہ نعرہ روح گرمادینے والا تھا۔
میرے کانوں میں ایک ہی صدا گونج رہی تھی:
وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کر دیے جائیں، انہیں مردہ نہ کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، مگر تمہیں شعور نہیں۔
- Get link
- X
- Other Apps
Comments
Post a Comment